8 منٹ

مقدمہ

انٹیلی جنس یعنی ذہانت وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے ہم سیکھتے ہیں، سوچتے ہیں، علم اور مہارت حاصل کرتے ہیں اور انہیں مسائل حل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ذہانت ایک قوت ہے، اور ہم وہ مخلوق ہیں جس نے اللہ تعالی کی دی ہوئی اس قوت کو سب سے زیادہ استعمال کیا ہے۔ ہر دریافت کے ساتھ ہم نے مزید سوالات کیے اور آگے بڑھتے گئے، جو کچھ ہم نے سیکھا اسے محفوظ کیا، مختلف فنون کی بنیاد رکھی ۔۔پھر سائنسی ترقی کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔۔ زراعت، تحریر، طب، فلکیات دنیا میں پھیل گئے۔

لیکن اب دنیا کو یکسر نئی صورتحال کا سامنا ہے۔۔ گویا ہم ایک نئے دور کا آغاز کرنے جارہے ہیں جس کے مقابلے میں آج کی دنیا پتھر کا زمانہ لگ سکتی ہے، ہم ایسی مشینیں بنا نے جارہے ہیں جو مشینیں بناسکتی ہیں ، ہم مصنوعی ذہانت بنا رہے ہیں۔۔ جو ممکنہ طور پر انسانیت کی آخری ایجاد ثابت ہوسکتی ہے۔

مصنوعی ذہانت کیا ہے؟

مصنوعی ذہانت، یا AI، یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس ایک سافٹ ویئر ہے جسے دماغ کے کام کرنے کے طریقہ کار کا انسان کے پاس جومحدود علم ہے، اس کی بنیا د پر بنایا گیا ہے، اب یہ انسان کی نقالی کی کوشش کرتے ہوئے ذہنی کام انجام دیتا ہے۔۔ ابتدا میں یہ بہت سادہ سا ہوا کرتا تھا۔ کوڈ کی لکیریں، کاغذ پر، محض تصوراتی ثبوت کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں، تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ مشینیں ذہنی کام انجام دے سکتی ہیں۔

1960 کی دہائی سے ہمیں مصنوعی ذہانت کی شروعات نظر آنے لگیں۔ 1964 میں ایک چیٹ بوٹ تیار کیا گیا۔ اور بھی کئی اس طرح کے پروگرامز قریب کے سالوں میں بنائے گئے۔۔ لیکن یہ سب سست،محدود نظام تھے، جو صرف ماہرین کے ذریعے استعمال کیے جا سکتے تھے۔ ان کی ذہانت بہت محدود تھی، صرف ایک مخصوص کام کے لیے، اور وہ بھی ایک مخصوص ماحول میں ۔ مصنوعی ذہانت کی تحقیق میں کئی بار پیش رفت رک گئی، کئی بار سائنسدانوں نے اس ٹیکنالوجی سے امیدیں چھوڑ دیں، انہیں یہ ناممکن لگتاتھا، کیونکہ کمپیوٹنگ پاور اتنی زیادہ نہیں تھی، نہ ہی اس وقت وہ سارے وسائل میسر تھے جو اس ایجاد کو ممکن بناتے، لیکن جیسے ہی وقت بدلتا ہے، ترقی ہوتی جاتی ہے، اے آئی کے لیے بھی نئے مواقع پیدا ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ 1950 سے 2000 کے درمیان کمپیوٹرز کی رفتار ایک ارب گنا بڑھ گئی، جبکہ پروگرامنگ بھی آسان اور عام ہوگئی۔1972 میں، مصنوعی ذہانت ایک کمرے کے اندر چل پھر سکتی تھی۔ 1989 میں یہ ہاتھ سے لکھے گئے نمبروں کو پڑھ سکتی تھی۔ لیکن یہ پھر بھی ایک آلہ ہی تھا، انسانی دماغ کی ٹکر کی چیز نہیں، انسانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا! یہاں تک کہ 1997 میں ایک مصنوعی ذہانت نے دنیا کے بہترین شطرنج کے کھلاڑی کو شکست دے کر دنیا کو حیران کر دیا۔

اس سے ہمیں اس وقت یہ اندازہ تو ہوگیا کہ ہم ایسی مشینیں بنا سکتے ہیں جو ہمیں شکست دے سکتی ہیں، لیکن ہم نے خود کو تسلی دی کہ شطرنج بوٹ بہت زیادہ ذہین نہیں تھا۔ وہ ایک مخصوص، محدود کام انجام دینے میں بہت اچھا تھا، جسے انسان دوبارہ کبھی بھی صرف شطرنج میں شکست نہیں دے سکے گا۔

لیکن جیسے جیسے کمپیوٹرز میں مزید ترقی ہوتی گئی، مصنوعی ذہانت زیادہ سے زیادہ کاموں کے لیے ایک سنجیدہ ذریعہ بن گئی۔ 2004 میں اس نے مریخ پر ایک روبوٹ کو چلایا، 2011 میں اس نے یوٹیوب ویڈیوز کی تجویزیں صارف کو اس کی پسند کے مطابق دینا شروع کی۔ لیکن یہ صرف اس لیے ممکن ہوسکا کیونکہ انسانوں نے مسائل کو آسان حصوں میں تقسیم کر دیا، جنہیں کمپیوٹرز جلدی جلدی حل کر سکتے تھے۔

پھر یہ ہوا کہ ہم نے مصنوعی ذہانت کو خود سے سیکھنا سکھایا، سپر کمپیوٹرز کی بے پناہ طاقت کو انٹرنیٹ پر دستیاب بے حد بڑے ڈیٹا کے ساتھ ملایا گیا اور ایک نئی مصنوعی ذہانت تیار کی گئی۔مصنوعی ذہانت کے ماہرین نے مصنوعی نیورونز کے بہت بڑے نیٹ ورکس کو نمایاں طور پر بہتر بنایا، جنہیں نیورل نیٹ ورکس کہا جاتا ہے۔ یہ نیٹ ورکس شروع میں اپنے کاموں کو کماحقہ انجام نہ دے سکے ۔ پھر انہوں نے مشین لرننگ کی تیکنیکس بنائیں۔ سادہ الفاظ میں کمپیوٹرز کو اپنے کوڈ کو خود لکھنے اور بہتر کرنے کی صلاحیت ملی۔اور دلچسب بات یہ ہے کہ ہم ٹھیک سے نہیں جانتے کہ وہ یہ بالضبط کیسے کرلیتے ہیں اور ان کے اندر کیا چل رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ ان پٹ اور آؤٹ کے درمیان اربوں فنکشنز کام کرتے ہیں جنہیں کمپیوٹر نے دیئے گئے معلومات کی بنیاد پر خود سے لکھا ہوتا ہے۔

یہ نئی مصنوعی ذہانتیں پیچیدہ مہارتوں میں بہت تیزی سے مہارت حاصل کر سکتی تھیں، اور زیاد انسانی عمل دخل بھی نہیں مطلوب ہوتا تھا، لیکن وہ اب بھی محدود ذہانت تھیں۔

2014 میں، فیس بک کی مصنوعی ذہانت 97 فیصد درستگی کے ساتھ چہرے کی شناخت کر سکتی تھی۔ 2016 میں ایک مصنوعی ذہانت نے انسانوں کو ایک انتہائی پیچیدہ کھیل (گو )میں شکست دی۔ اس کے بعد سے مشین لرننگ کو پڑھنے، تصاویر کی پروسیسنگ، ٹیسٹ حل کرنے اور بہت کچھ کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ ان میں سے بہت سی AIs ہی اپنے مخصوص کام میں انسانوں سے بہتر ہیں، لیکن وہ اب بھی ایک سادہ آلہ ہی ہیں۔ بلکہ عموما لوگوں کے لیے AI ابھی تک کوئی بڑی بات نہیں لگتی تھی۔

لیکن پھر چیٹ جی پی ٹی نامی بات چیت کرنے والا بوٹ آیا، اور اس نے لوگوں کی سوچوں کو بدل کر رکھ دیا، اور ایک نئے دور کی شروعات کا اعلان کردیا ، اس کی تیاری میں بہت محنت لگی۔ اسے انٹرنیٹ پر لکھی گئی تقریباً ہر چیز پر تربیت دی گئی تاکہ وہ انسانی زبان کو سمجھ سکے۔ اسی بنیاد پر اب یہ لوگوں کی باتیں صحیح سمجھ سکتا ہے، یہ خلاصہ کر سکتا ہے، ترجمہ کر سکتا ہے اور کسی حد تک ریاضی کے مسئلے حل کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ یہ صرف چند سال پہلے کے کسی بھی سسٹم سے کہیں زیادہ وسیع ہے، اور پوائنٹ کی بات یہ ہے کہ یہ کسی ایک فیلڈ میں بہتر نہیں بلکہ تقریبا ہر فیلڈ میں ایک ساتھ اچھا ہے۔

پہلے ہی کسٹمر سروس، بینکنگ، صحت کی دیکھ بھال، مارکیٹنگ، تحریر، تخلیقی شعبوں اور بہت کچھ کو بدل رہی ہے۔ AI سے تیار کردہ مواد پہلے ہی سوشل میڈیا، یوٹیوب اور خبروں کی ویب سائٹوں پر چھا گیا ہے۔ خدشہ ہے کہ کچھ عرصہ بعد انٹرنیٹ پر پروپیگنڈا اور غلط معلومات کی ایسی بھر مار ہو گی۔ اور پھر سب انسانی ہاتھ سے لکھی تحریروں کو سرچ کرنے کے لئے تگ ودو کیا کریں گے، سیکورٹی کے پیچیدہ مسائل جنم لیں گے، یہ بھی ایک عالمی سوال بن کر رہ گیا ہے کہ AI اپنانے سے کتنا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔

ہر نئی تبدیلی ڈراؤنی ہوتی ہے۔ اس میں کچھ لوگ آگے بڑھیں گے اور کچھ پیچھے رہ جائیں گے۔ حکومتوں اور بڑی کمپنیوں کے سامنے اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ AI کے بعد آنے والے دور کے چیلنجز کو کیسے حل کیا جائے۔ اوریہ سارے ممکنہ فوائد یا خطرات صرف آج کی AI کا نتیجہ ہیں۔ چیٹ جی پی ٹی کی ذہانت اگرچہ ایک بڑا قدم ہے، لیکن یہ اب بھی محدود ہے۔ اگرچہ یہ سیکنڈوں میں ایک بہترین مضمون لکھ سکتا ہے، لیکن یہ نہیں سمجھتا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگرمصنوعی ذہانتیں اور ان کی صلاحیتیں محدود نہ رہیں تو کیا ہوگا؟ کیونکہ چیز انسانوں کی کارکردگی کو موجود AI کی کارکردگی سے مختلف بناتی ہے وہ ہماری عام ذہانت ہے۔ انسان تکنیکی طور پر معلومات کو سمجھ سکتے ہیں اور کسی بھی مسئلے پر کام کر سکتے ہیں۔ ہم بہت سے مختلف ہنروں اور کاموں میں اچھے ہیں، کھیلنے سے لے کر لکھنے تک، بہت سی پیچیدہ امور کو حل کرلیتے ہیں اور ان کی گتھیاں بآسانی سلجھالیتے ہیں ۔ بیشک ہر فرد ہر فیلڈ میں ماہر نہیں، ہم میں سے کچھ کسی شعبے میں ماہر ہیں اور دوسرے شعبہ میں ناتجربہ کار، لیکن تکنیکی طور پر ہم انسان مجموعی طور پر یہ تمام کام کر سکتے ہیں۔ اسے ہم بنی نوع انسان کی مجموعی ذہانت یا عام ذہانت یا جنرل انٹیلیجنس سے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ اب آتے ہیں مشین کی طرف، ماضی میں AI محدود تھی اور ایک ہنر میں اچھی ہو سکتی تھی لیکن باقی سب میں کمزور تھی۔ ان موجودہ نتائج کو حاصل کرنے کے لئے بنیادی طور ہمیں مختلف تکنیکوں کے ساتھ ساتھ ایک کام یہ کرنا پڑا کہ تیز تر کمپیوٹر بنا کر اور AI کی تربیت میں زیادہ پیسہ لگا کر ہمیں AI کے جدید تر اور زیادہ طاقتور نسخے مل گئے ۔

اگر AI کی بہتری کا عمل اسی طرح جاری رہا جیسا چل رہا ہے، تو یہ بعید نہیں کہ جلد AGI کا دور شروع ہوجائے ، یعنی کہ انسانوں کی عام ذہانت کے مقابلہ میں مشینوں کی عام ذہانت جسے ماہرین آرٹیفیشل جنرل انٹیلیجنس سے تعبیر کر رہے ہیں ، جو زیادہ تر یا شاید تمام ہنروں میں انسانوں سے بہتر ہو سکتی ہے۔

عموما ہم نہیں جانتے کہ AGI کیسے بنائی جائے گی، یہ کیسے کام کرے گی یا یہ کیا کر سکے گی۔ چونکہ آج کی محدود AIs ایک ذہنی کام کو جلدی سیکھنے کے قابل ہیں، AGI شاید تمام ذہنی کاموں کے ساتھ ایسا ہی کر سکے۔ اگرچہ یہ کہانی لگتی ہے، لیکن زیادہ تر AI کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ یہ اس صدی میں ہی ہو جائے گا، اور ممکن ہے کہ چند سالوں میں اس کی شروعات ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہو۔ لیکن کیا انسان اس کے لئے تیار ہے، میرے خیال میں تو نہیں ۔ کسی بھی پہلو سے تیار نہیں ہے۔۔

آج کی AIs جیسے چیٹ جی پی ٹی پہلے ہی اپنے مقررہ کاموں کو بہت ماہر انسانوں سے کم از کم دس گنا تیز حل کرتی ہیں۔دنیا میں 80 لاکھ سائنسدان ہیں - اب تصور کیجیے ایک AGI جس کی دس لاکھ کاپیاں بنا کر کام پر لگا دی جائیں۔ تصور کیجیے دس لاکھ مشینی سائنسدان ۔۔ جو 24 گھنٹے کام کر رہے ہیں، انسانوں سے دس گنا تیز سوچ رہے ہیں، بغیر کسی مداخلت یا روک ٹوک کے تسلسل سے صرف اپنے دیے گئے کام پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں، صرف تصور کرلیں۔۔ جوکہ عنقریب حقیقت میں بدل سکتا ہے، اور بظاہر اس تک پہنچنے کے لئے ہمیں بڑا ڈیٹا اور طاقتور پراسسینگ پاور اور کچھ اپ گریڈ ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔۔


Copied